اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کیلئے کوشاں میراویب سائٹ
دین اسلام
آپ بہت ہی مناسب ویب سائٹ پر تشریف لائے ہیں جہاں مکمل صراط مستقیم کی راہنمائی کی جاتی ہے
مضامین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
( کیوں ہوا؟ ) امدا ومصلیا اما بعد ، دل مغموم ہی نہیں بلکہ ماؤف ہوچکا ہے آنکھیں خشک ہو کر بینائی کو خیر آباد کر رہی ہیں،مسلسل کئی ماہ سے قلب سلیم کو مریض اور صحت مند کو لاغر کردینے والی خبر صدائے باز کی طرح دل ودماغ میں گشت کررہی ہے ،اسی اندوہ ناک غم میں ماہی بے آب کی طرح حیات و ممات کے درمیان گھٹ گھٹ کر جی رہاہوں ،آخر بولوں تو کس کو بولوں اور کہوں تو کس کو کہوں ؟ دعا بھی بدستور شب و روز صبح وشام صوم و صلوٰۃ میں خطبہ جمعہ وعیدین میں اجتماعیت وانفرادیت کے ساتھ ہورہی ہے لیکن ان تمام سعی پیہم کوہماری بداعمالیاں دروازہ قبولیت پر پہونچنے نہیں دیتی،اسی کسمپرسی میں دیوانہ وار لیل ونہار گزرہے تھے ،کہ کئی حضرات نے مجھ سے قول وقرار لے ہی لیا کہ میں جمعہ کے بیان میں سوئی ہو امت کو جگاؤں ، بالآخر اسی وعدہ کا ایفاء کر رہاہوں ، (احساس قلب) ساتھ ہی اس بات کا بھی ہمیں احساس ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں جی رہے جہاں کی آزادی صرف زبانی رہ گئی ہے اگرحقیقت لکھا جائے یا بولا جائے تو اسے دہشت گردی یا بغاوت کا جامہ زیب وتن کر کے سزائے موت نہیں توکم از کم عمر قید کا مزدہ سنادیاجاتاہے ، اسلئے بڑے احتیاط اور بیدار مغزی کے ساتھ حدود میں رہتے ہوئے عرض گذار ہوں ،اور ایسے ملک میں کیا عرض کیا جائے جہاں کی حکومت خود برما کی ظالم حکومت سے ہاتھ ملاتی ہواس سے دوستی اور مواخات کاعہد کرتی ہو ۔ (میانمار ،برما) میانمار/ برما : ماضی میں حکومت برطانیہ کے زیر اثر رہا ہے، اس کی سرحدیں بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ سے ملتی ہیں، اس ریاست کا قدیم نام برما مشہور تھا قانون کی حکمرانی اور موثر عدالتی نظام کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔ تیل کے کنویں ہونے کی وجہ سے ذریعہ معاش تیل کی فروخت ہے۔ نہرو اپنی کتابGlimpses of World Historyمیں لکھتے ہیں کہ انگریزوں نے1826سے1886کے درمیان میں اس علاقے پر قبضہ کیا تھا مگر 1935کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت برما کو بھارت سے علیحدہ کردیا گیا،اور4جنوری 1948 کو برطانوی اثر سے یہ ملک آزاد ہوا ، دوسری جنگ عظیم کے دوران برما پر جاپان کا بھی قبضہ رہا، یہاں اکثریت آبادی بدھ مت جبکہ عیسائی اور مسلمانوں کی بھی محدود تعداد موجود ہے،اسی اقلیت کی وجہ سے مسلسل بے چارے نہتے مسلمانوں کو وقتاً فوقتاً ظلم وبر بریت کا نشانہ بنایا جا تا ہے ۔ (مظلوم مسلمان) خوداقوامِ متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں راکھین کے روہنگیا مسلمانوں کو ’’روئے عالم کی مظلوم ترین اقلیت‘‘قرار دیا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق تو دور کی بات انہیں اپنے آپکو ملک کا شہری کہلانے کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔ میانمار غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جو محض مذہبی عناد کی وجہ سے اپنے شہریوں کو شہری تسلیم کرنے سے انکارکررہی ہے۔ اگست 2012ء میں برطانوی ٹی وی چینل ’چینل فور‘ نے ایک دستاویزی رپورٹ نشر کی جس میں بتایا گیاکہ کس طرح مسلمان، کیمپوں میں جانوروں والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں تقریباً 10 ہزار مکانات کا ملبہ بھی دکھایا گیا جس کے بعد اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین نے اپنی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق تشدد کی اس لہر میں کم از کم 80 ہزار مسلمان اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک اعلیٰ عہدیدار ’نوی پلے‘ نے انتظامیہ کے سلوک و رویے کے حوالے سے بھی ایک رپورٹ دی کہ مقامی پولیس اور بدامنی پر قابو پانے کیلئے بھیجے جانے والی فوج بھی بے گناہ مسلمانوں کو ہی نشانہ بنا رہی ہے۔ اکتوبر 2012ء میں جب مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے مسلمانوں کی مدد کے لئے میانمار میں دفتر کھولنے کی اجازت طلب کی تو میانمار کے صدر نے اجازت دینے سے انکار کر دیا ، ہیومن رائٹس واچ نے بارہا عالمی برادری کے سامنے بے شمار ٹھوس دستاویزی اور تصویری ثبوت پیش بھی کئے اور اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری’’ جنرل بان کی مون‘‘ سے بھی اپیل کی کہ وہ تشدد روکنے میں اپنا کردار ادا کریں لیکن یہ ساری کوششیں بے سود رہیں۔ اور یہ ظالم حکومت تسلسل کے ساتھ 2013،2014،2015،2016اور 2017 میں اپنی ظلم وبر بریت کو جاری کئے ہوئی ہے ،ابھی حال کے ظلم وبربریت میں لاکھوں مسلماں اپنا جان مال اور خاندان کو خیر آباد کر چکے ہیں ، ۳/ستمبر کی رپوٹ کے مطابق تقریبا ۷۱۰۰۰ ہزارمسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لئے ہوئے ہیں ،تو کئی ہزار تھائی لینڈ،ہندوستان اور پاکستان میں خفیہ طور پر سرحدی علاقے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ،صرف روہنگیا میں ۲۶۰۰ ہزار گھروں کو آگ لگاکر جلادیاگیا جس میں کتنے ہی بچے اورمردو عورت جل کر راکھ بن گئے ۔ حضرات ! اس المیہ میں ہم دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا ومفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہ العالی کا پیپرمیں مذکور بیان بھی ذکر دیتے ہیں ، حضرت نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر نہایت رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ ،حقوق انسانی تنظیموں اور حکومت ہند سے مؤثر اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے ،حضرت نے فرمایا جس بے رحمی کے ساتھ برما میں روہنگیا کے مسلمانوں کا قتل عا م اور انکی خواتین کی آبروریزی کی جارہی ہے تا ریخ میں اسکی مثال مشکل سے ملتی ہے ...........سوشل میڈیا پراس انداز کے مناظر سامنے آرہے ہیں آنکھیں انکو دیکھ نے کی تاب نہیں رکھتی ہیں، اگر یہی ظلم وستم اور قتل و غارتگری مسلمان کے علاوہ دیگر طبقہ کے ساتھ ہوتی تو اب تک دنیا اور میڈیا نیز ’’ یو ان او ‘‘میں چیخ پکار شروع ہو جاتی ؛لیکن یہ معاملہ مسلمانوں سے وابستہ ہے؛ اس لئے پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہے ۔حضرت نے فرمایا ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی میانمار گئے لیکن انہوں نے بھی اس مسئلہ کو بہت ہلکے انداز میں پیش کیا ،انہوں نے وہاں وہ آواز نہیں اٹھائی جو وقت کی ضرورت تھی ۔ ساتھ ہی جمیعۃ العلماء ہند نے اس سلسلے میں مطالبہ کرتے ہو ئے کہا (۱) بلاتاخیر انسانی المیہ کی بین الاقوامی انکوئری کرائی جائے اور متأثرین تک عالمی میڈیا اور رفاہی اداروں کی رسائی کی اجازت دی جائے ،(۲) انتہائی کسمپرسی کے عالم میں کیمپوں میں پناہ لئے متأثرین کی بارآبادکاری کی جا ئے (۳)روہنگیا کے مسلمان کو شہریت دی جائے (۴) جو لوگ حالات سے متأثر ہو کر دوسرے ممالک میں پناہ لے چکے ہیں انہیں متعلقہ ممالک رفیوجی کا درجہ دیکر ان کے ساتھ انسانی سلوک کرے اور ہر ممکن انکی مدد کرے۔ آل انڈیا متحدہ محاذ کے ذریعہ محاذ کے قومی صدر شاہنواز آفتاب کی قیادت میں ایک’’ میمورنڈم ‘‘اے ڈی ایم کے ذریعہ وزیر اعظم نیرندر مودی اور اقوام متحدہ کے نام ارسال کیاگیا ،میمورنڈم میں وزیر اعظم نریندر مودی سے میانمار حکومت کے ذریعہ جاری مسلمانوں کی قتل عام بند کرنے کی اور اقوام متحدہ سے مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے ۔ (ہم کیاکریں ) حضرات ! نہ تو ہمیں کوئی غلط قدم اٹھانی ہے اور نہ ہمارے علماء کرام واکابرین عظام اسکی اجازت دیتے ہیں،بس ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پوری دنیا کو ظالموں سے نجات دے اور رہی بات ان بے چارے مسلمانوں کی تعاون کا توبقول مولانا یاسر ندیم کے ’’اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ بنگلہ دیش اور برما کی سرحد پر پھنسے ہوے لاکھوں مہاجرین کی امداد کی فکر کی جائے۔ لیکن پریشانی یہ ہے کہ بیرون ملک ترسیل زر کے قوانین ہندوستان میں بہت سخت ہیں، نیز ایسی کوئی تنظیم بھی میری معلومات کی حد تک موجود نہیں ہے جو بنگلہ دیش اور برما تک رسائی رکھتی ہو۔ میں نے برطانیہ کی دو اور ترکی کی ایک رفاہی تنظیم سے جو برما تک رسائی رکھتی ہیں رابطے کی کوشش کی ہے، ابھی تک صرف ایک برطانوی رفاہی ادارے نے جواب دیا ہے، لیکن اس تنظیم کے برطانوی اکاؤنٹ تک روپیے ٹرانسفر کرنا بھی کسی مہم سر کرنے کے مرادف ہے۔ہندوستان میں موجود ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کی مدد بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ حیدرآباد کی ایک تنظیم فعال انداز میں ان کی حتی الامکان معاونت کررہی ہے، ساتھ ہی اس تنظیم نے ماہر ترین وکلا کی مدد سے سپریم کورٹ میں کیس بھی داخل کیا ہے، جس کا فیصلہ گیارہ ستمبر کو آنا ہے۔ فوری طور پر کم از کم ایسے رفاہی اداروں کی مدد سے بے گھر برمی مسلمانوں کا تعاون کرنا ہمارا ملی فریضہ ہے۔(حرف آخر)آخری بات جو آپ سے کرنی ہیں کہ بھائیو! ہم سب تمام مسلمانوں کیلئے عموماً اور خصوصاً برما کے مسلمانوں کیلئے دعاکریں کہ اللہ تعالی انکی مکمل طور پر حفاظت فرمائے نیز اگر ہو سکے تو انفرادی طور پر اپنا اپنا تعاون بھی ان مظلوموں تک پہونچائیں نیز مسلمانوں کے حالات دن بدن خراب ہوتے ہی جارہے ہیں اس پس منظر میں ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں ہے کہ تمام حالات من جانب اللہ ہی آتے ہیں اورحالات اعمال کے تابع ہوتے ہیں اس لئے ہم سب اپنے ایمان واعمال کو درست کرتے ہوئے اپنے زکوۃ سے تھوڑامال ان کاموں بھی لگا ئیں اور جب بھی زکوٰۃ نکا لیں تو کچھ رقم ان حالات کے لئے بھی مختص کردیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور پوری ملت اسلامیہ کی حفاظت فرمائے ،آمین |
مضامین
سول کوڈ
برما کے مظلوم مسلمان
یکساں سول کوڈ
تین طلاق اور ہندوستان کی عدالت کا فیصلہ
سول کوڈ اور ملک بھارت
طلاق اور ملک بھارت
سول کوڈ اور ملک بھارت
طلاق اور ملک بھارت
برما کے مظلوم مسلمان
یکساں سول کوڈ
تین طلاق اور ہندوستان کی عدالت کا فیصلہ
سول کوڈ اور ملک بھارت
طلاق اور ملک بھارت
سول کوڈ اور ملک بھارت
طلاق اور ملک بھارت